مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے کہا ہے کہ ‘کشمیر کے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور انہیں بدترین معاشی اور نفسیاتی تکالیف کا سامنا ہے۔’
محبوبہ مفتی کو پانچ اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لیے جانے سے قبل حراست میں لیا گیا تھا۔
التجا مفتی نے اپنی والدہ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اپنی والدہ کی گرفتاری کے گذشتہ چھ مہینوں کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
انہوں نے تصدیق کی کہ ان کی والدہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ لگایا گیا ہے۔
کشمیر کے سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر جمعرات کو پبلک سیفٹی ایکٹ لگایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت حکومت مقدمہ چلائے بغیر کسی شخص کو دو برس تک قید میں رکھ سکتی ہے۔
یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے دونوں سابق وزرائے اعلیٰ کی گرفتاری کے چھ مہینے مکمل ہونے کے آخری دن سامنے آیا ہے۔
التجا مفتی جو گذشتہ سال اگست سے اپنی والدہ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ استعمال کر رہی ہیں، نے بتایا کہ وہ کس طرح پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی چیئرمین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں وہ ہفتہ کبھی نہیں بھول سکتی جب انہیں گرفتار کر کے جیل میں قید کر دیا گیا۔ میں نے اگلے کئی دن شدید بے چینی میں گزارے پھر مجھے ایک دن ٹفن باکس میں ایک خستہ حال اور مختصر الفاظ پر مشتمل خط ملا۔ اس ٹفن باکس میں ان کے لیے گھر کا پکا کھانا بھیجا جاتا تھا۔
التجا مفتی کے مطابق 60 سالہ محبوبہ مفتی نے اس ٹفن باکس میں رکھے نوٹ میں لکھا تھا کہ میں نے یہ اخذ کیا ہے کہ میں بات چیت کے لیے سوشل میڈیا استعمال نہیں کر سکتی، اگر کوئی اور ایسا کرے گا تو اس پر دھوکہ دہی کی دفعات عائد کی جائیں گی۔ میں تم سے پیار کرتی ہوں اور بہت یاد کرتی ہوں۔
التجا مفتی نے بتایا کہ ’اب پیغام کا جواب دینے کا مسئلہ کھڑا ہوگیا، میری دادی نے اس کا ایک عقلمندانہ حل ڈھونڈ نکالا۔ میں نے جو خط لکھا تھا اسے احتیاط سے موڑ کر چپاتی کے اندر درمیان میں رکھ دیا‘
محبوبہ مفتی کو حراست کے بعد پہلے تو چشسما شاہی گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا جس کے بعد انہیں سری نگر میں سرکاری بنگلے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔