chotay se gaon ki qandeel
چھوٹے سے گاؤں کی قندیل بلوچ جس کے خواب بہت بڑے تھے
قندیل بلوچ، ایک چھوٹے سے گاؤں کی لڑکی جس نے بہت بڑے خواب دیکھے تھے۔ وہ میری طرح کی ہی ایک لڑکی تھی۔ دنیا کی دیگر نوجوان لڑکیوں کی طرح اس نے بھی سوشل میڈیا کا استعمال تو کیا لیکن ذرا مختلف طریقے سے۔
اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کر کے قندیل نے ایک غیر معمولی زندگی کا آغاز کیا اور آن لان سٹار بن گئیں۔
وہ خود کو ’گرل پاور‘ یعنی لڑکیوں کی طاقت کہتی تھیں۔
اس نے رقص کیا، جسم کی نمائش کی، اس کی سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے اسے پذیرائی بھی ملی محبت بھی اور نفرت بھی۔ لیکن نتیجہ مرد کی جانب سے عورت پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں نکلا۔
ٹھیک ایک سال قبل آج ہی کے دن یہ خبر ملی کہ قندیل بلوچ کو ان کے سگے بھائی نے قتل کر دیا ہے۔ رات گئے گرفتاری کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران ان کے بھائی وسیم نے ان کے قتل کا اعتراف کیا اور کہا کہ قندیل کی وجہ سے ان کے خاندان کی بےعزتی ہو رہی تھی اور سوشل میڈیا پر قندیل کی جو ویڈیوز آئی تھیں ان پر لوگ انھیں طعنے دیتے تھے جو ان سے برداشت نہیں ہوتے تھے۔
پاکستان میں میری جیسی عورتیں اس کی موت سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔ کچھ بننے کی کوشش میں وہ موت کے منہ میں چلی گئی۔
میں جاننا چاہتی تھی کہ مذہب اور خاص طور پر ایک امام کا قندیل کی ہلاکت میں کیا کردار تھا۔
جب قندیل نے ملتان سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالقوی کے ساتھ سیلفی لی تو تب تک وہ سوشل میڈیا پر ایک بڑی سٹار بن چکی تھیں اور ان کی سیکسی پوسٹس کو دیکھنے والے لاکھوں میں تھے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں مفتی عبدالقوی نے ایک ٹی وی پروگرام میں انھیں کراچی آنے کی دعوت دی۔
مفتی قوی اس سے قبل ماڈلز کے ساتھ بھی ٹی پروگرام میں شرکت کرتے رہے اور اخلاقیات کے موضوع پر بات کی۔
قندیل نے پاکستان کے سابق کرکٹر عمران خان کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی شادی کی دعوت دی تھی۔
20 جون کو مفتی قوی اور قندیل بلوچ کے درمیان کراچی کے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ قندیل نے اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیں جو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئیں۔
تاہم اس کے بعد دو واقعات ہوئے۔ ایک تو مفتی قوی کی رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت معطل کر دی گئی اور پھر قندیل کے بھائی نے انھیں قتل کر دیا۔
اس قتل میں مفتی قوی ان کے ساتھ لی جانے والی سیلفیوں کا اہم کردار نظر آتا ہے۔
قندیل کے قتل کے الزام میں چار افراد گرفتار ہوئے۔ جس گاڑی میں قندیل کا بھائی اپنے کزن کے ساتھ فرار ہوا اس کا ڈرائیور مفتی عبدالقوی کا رشتے دار بتایا جاتا ہے۔
کیا واقعی ہی کچھ ایسا تھا؟
میں نے مفتی عبدالقوی کے دفتر میں ان سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے قندیل کے اہلِ خانہ بھی یہی بات دہراتے ہیں کہ مفتی عبدالقوی کی وجہ سے لوگ قندیل کے خلاف ہو گئے تھے اور پھر ان کے بھائی کو بھی جن لوگوں نے ورغلایا وہ آپ کی وجہ سے ہی ہوا؟
مفتی عبدالقوی یہ الزام مسترد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ابتدائی دنوں میں شاید کچھ لوگوں میں یہ بات آئی ہو کہ مفتی صاحب قصور وار ہیں۔ لیکن جو مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہیں جو میری گفتگو سے باخبر ہیں میں نہیں سمجھتا ان کے دل میں یہ بات تھی۔ تقریباً سب کی بات یہی تھی کہ مفتی صاحب آپ کے ساتھ جو اس محترمہ نے کیا ہے وہ غلط کیا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ مقتولہ کی والدہ نے جو بھی کہا وہ غلط ہے۔
شاید انھوں نے قندیل کو قتل نہیں کیا لیکن انھیں اس پر افسوس نہیں تھا۔ ان کا انداز بیان دھمکی آمیز تھا۔ وہ بضد تھے کہ وہ معصوم ہیں اور قندیل کا قتل خدا کی کرنی تھی۔
لیکن ایک بات جس نے مجھے خود حیران کیا جب مفتی عبدالقوی نے مجھے چھونے کی کوشش کی۔
میں نے مفتی عبدالقوی سے کہا کہ مجھے نماز پڑھنی ہے تو انھوں نے مجھے میرے نام کا مطلب بتایا شروع کر دیا اور اس کے بعد کیمرے کے سامنے میرے دونوں گالوں سے اپنی انگلیاں مس کیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ اس عمل کی کوئی توجہیہ پیش نہیں کر سکتے۔
میں قندیل کے کیس کی تفتیش کرنے والی خاتون پولیس آفیسر عطیہ جعفری سے ملی تو میں نے انھیں بھی عبدالقوی سے ملاقات کے بارے میں بتایا۔
پولیس کو قندیل کے بھائی اور مفتی عبدالقوی کے درمیان تعلق اور رابطے کا ثبوت نہیں ملا تاہم پولیس آفیسر عطیہ جعفری کا خیال ہے کہ اگر غیرت کی بات ہوتی تو بھائی پہلے ہی بہن کو مار دیتے۔ آخر 20 جون کے بعد ہی ایسا کیوں ہوا۔
کچھ یہی اشارہ ان کے بھائی کے میڈیا کے سامنے دیا جب یہ کہا کہ ‘وہ جو مولوی کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ میڈیا پر آ گیا۔ پہلے تو یہ مسئلہ نہیں تھا یہ مسئلہ بنا تو ہم نے ایسا کیا۔’
مگر اب سوال یہ ہے کہ کیا قندیل کے والدین اپنے بیٹے کو بیٹی کا قتل معاف کر دیں گے؟