جب نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو آپ ﷺ کی مہار کس جلیل القدر فرشتے نے تھام رکھی تھی؟ ایسی ایمان افروز تحریر جو آپ نے آج سے پہلے نہیں پڑھی
فرشتہ فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے جو اردو میں بھی اپنے اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ فرشتے کا لفظ اردو نے فارسی زبان سے ادھار لیا ہے۔ عربی میں فرشتے کو ملائکہ کہا جاتا ہے۔ ہے، جس کامادہ”الک” ہے، الک کا مطلب ہے “پیغام پہنچانا”، ملائکہ جمع ہے اس کا واحد “ملک” کہلاتا ہے۔ فرشتے اللہ کے ایماندار، مکرّم بندے ہیں جواس کی نافرمانی کبھی نہیں کرتے ہیں۔ ہر قسم کے گناہ سے معصوم ہیں۔ ان کے جسم نورانی ہیں، اور وہ نہ کچھ کھاتے ہیں ،نہ پیتے ہیں۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ قدرت دی ہے کہ وہ جو شکل چاہیں اختیار کریں۔ وہ جدا گانہ کاموں پر مقررہیں۔ بعض جنّت پر، بعض دوزخ پر، بعض آدمیوں کے عمل لکھنے پر، بعض روزی پہنچانے پر، بعض پانی برسانے پر، بعض ماں کے پیٹ میں بچہ کی صورت بنانے پر، بعض آدمیوں کی حفاظت پر ،بعض روح قبض کرنے پر ،بعض قبر میں سوال کرنے پر، بعض عذاب پر، بعض رسول علیہ السلام کے دربار میں مسلمانوں کے درود و سلام پہنچانے پر، بعض انبیاء علیہم السلام کے پاس وحی لانے پر ۔ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی قوت عطا فرمائی ہے وہ ایسے کام کر سکتے ہیں جسے لاکھوں آدمی مل کر بھی نہیں کر سکتے ۔ نہ مردہیں نہ عورت ،ان کی تعداد اللہ تعالیٰ جانتا ہے ۔ ان میں چار فرشتے بہت عظمت رکھتے ہیں۔ حضرت جبرائیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل، حضرت عزرائیل علیہم السلام۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ ایک جلیل القدر فرشتے ہیں جوکہ اسلامی عقیدے کے مطابق فرشتوں کے سردار ہیں ۔ جو انبیاء کرام کی طرف وحی لانے پر مامور رہیں ہیں۔ روایت ہے کہ شب معراج میں حضرت جبریل براق لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور مقام سدرۃ المنتٰہی تک ہمرکاب رہے تھے۔ قرآن مجید میں حضرت جبرائیل کا ذکر نام کے ساتھ تین جگہوں پر آیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں آپ کو روح القدس بھی کہا گیا ہے۔ دوسرے مقامات پران کے بارے میں اشارے بھی موجود ہیں۔
بائبل عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں بھی آپ کا تذکرہ گبرائیل یا جبرائیل کے ساتھ ہی آیا ہے۔ حضرت میکائیل علیہ السلام حضرت میکائیل بھی ایک مقرب فرشتے ہیں ان کے ذمے پانی برسانے اور خدا کی مخلوق کو روزی پہنچانے کا کام مقرر ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام حضرت اسرافیل علیہ السلام بھی مقرب فرشتوں میں سے ایک برگزیدہ فرشتے ہیں۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق اللہ تعالی نے اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے پر مامور کیا ہے۔ قرب قیامت کے وقت یہ خدا کے حکم سے صور پھونکیں گے تو تمام لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ دوبارہ پھونکیں گے تو مرے ہوئے لوگ زندہ ہو کر میدان حشر کی طرف دوڑیں گے۔ جہاں ان کے اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ قرآن مجید میں نفخ صور کا ذکر ہے۔ البتہ اسرافیل کا نام کہیں نہیں آیا۔ البتہ حدیث کی متعدد کتب میں حضرت اسرافیل علیہ السلام کا نام آیا ہے۔ آئمہ طبری ، کسائی اور غزالی رحمہ اللہ وغیرہ نے قیامت کے ضمن میں اسرافیل علیہ السلام کے تفصیلی حالات لکھے ہیں۔ یہودیوں کی روایات میں بھی ایک فرشتے کا نام کہیں سرافیم کہیں سرافیل اور کہیں سرافین بتایا گیا ہے۔ لیکن یہودی نفخ صور کے قائل نہیں۔ نفخ صور کا عقیدہ مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام حضرت عزرائیل ایک مقرب فرشتے ہیں جنہیں روح قبض کرنے یعنی لوگوں کی جان نکالنے کی خدمت سپرد کی گئی ہے، بے شمار فرشتے ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ ان کو فرشتہ اجل اور ملک الموت بھی کہا جاتا ہے۔آپ کا شمار بھی چار مقرب فرشتوں میں ہوتا ہے. آپ سب سے آخر میں فوت ہوں گے۔ آج کس کے لیے بادشاہت ہے ۔(پ۲۴،المؤمن: ۱۶) اس آیت کے تحت مفسرین لکھتے ہیں کہ جب آسمان و زمین سب فنا ہوجائیں گےسب سے آخر میں حضرت عزرائیل علیہ السلام کی روح قبض ہوگی۔ تب اللہ یہ اعلان فرمائے گا۔ آج کس کی بادشاہت ہے۔ تو کوئی جواب نہ آئے گا۔تو خود ربُّ العزت جل جلالہٗ جواب فرمائے گا: اﷲ واحد قہار کے لیے ہے۔(پ ۲۴،المؤمن: ۱۶) بعض علماء و مفسرین رحمہم اللہ تعالیٰ واقعہ معراج کے زمرے میں لکھتے ہیں کہ نبی کریم، ر ئووف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رفیق حضرت سیِّدُناجبرائیل علیہ الصلٰوۃ والسلام تھے، اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بُراق کی رکاب حضرت سیِّدُنامیکائیل علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پکڑ رکھی تھی جبکہ دامنِ رحمت حضرت سیِّدُنا اسرافیل علیہ الصلٰوۃوالسلام کے دستِ اقدس میں تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آسمانوں پر بلا نے والا خود ربِّ جلیل عَزَّوَجَلَّ تھااور جن کو بلایا گیاتھا وہ حضرت سیِّدُنامحمدمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تھے، دعوت کا مقام قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی تھا،اورخلعت گنہگارانِ اُمَّت کی شفاعت تھی۔