Saudi Arab mein phansi ka elaan
سعودی عرب میں ایک ایسے شخص کو پھانسی دینے کی تیاریاں مکمل کہ دنیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا
سعودی عرب میں حکومت مخالف سرگرمیوں کی سزا موت ہے۔ 2012ءمیں ملک کے مشرقی علاقے میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے ہوئے جن کی منصوبہ بندی کرنے پر شیعہ عالم شیخ نمر النمر کا سرقلم کر دیا گیا تھا۔ اب ان مظاہروں میں شریک ایک اورایسے شخص کا سرقلم کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے کہ دنیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ دی انڈیپنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ جزوی طور پر بہرہ اور اندھا 23سالہ نوجوان منیر الآدم ہے جس پراحتجاج کے دوران پولیس پر حملہ کرنے اور دیگر جرائم کے تحت مقدمہ چلایا گیا اور ریاض کی ایک عدالت نے اسے گزشتہ سال جنوری میں موت کی سزا سنائی تھی۔
رپورٹ کے مطابق منیر الآدم نے اس سزا کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا لیکن وہاں سے بھی رواں سال مئی میں سزا کو برقرار رکھنے کا فیصلہ آیا۔ اب ایک انسانی حقوق گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ”حکام نے منیر کو قیدتنہائی میں ڈال دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی وقت اس کا سرقلم کیا جا سکتا ہے۔ اسے 22جون کو قیدتنہائی میں ڈالا گیا اور سعودی حکام اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دے رہے۔“ گروپ کے مطابق سعودی جیلوں میں عام طور پر سزائے موت کے کسی قیدی کو اس وقت دوسرے قیدیوں سے الگ سیل میں بند کیا جاتا ہے جب اس کا سرقلم کیا جانا ہو۔ ایسے قیدی کوایک لمحے کے لیے بھی اس سیل سے باہر نہیں نکالا جاتا۔گروپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”گرفتاری سے قبل منیر جزوی بہرہ تھا لیکن اب پولیس کے تشدد کی وجہ سے اس کا ایک کان مکمل ناکارہ ہو چکا ہے۔ اس پر تشدد کرکے اعتراف جرم کروایا گیا اور اسی کی بناءپر اسے سزائے موت دی گئی۔ اس کا ٹرائل خفیہ اور غیرشفاف طریقے سے چلایا گیا۔“